گل مکئی کی ڈائری
)ملالہ یوسفزئی(
صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں 2009
میں ایک طرف سکیورٹی فورسز اور مسلح طالبان کی جھڑپوں میں درجنوں عام شہریوں کی
ہلاکتوں کا سلسلہ جاری تھا تو دوسری طرف مسلح طالبان نے درجنوں سکولوں کو تباہ کیا
جن میں سے زیادہ تر لڑکیوں کے تھے۔
اسی
سال جنوری میں طالبان نے لڑکیوں کے سکول جانے پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا
تھا۔ اس صورتحال میں طالبات پر کیا گزر رہی تھی، بی بی سی ارود ڈاٹ کام نے اس وقت
ساتویں جماعت کی طالبہ ملالہ یوسفزئی کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کی تھی۔
اس وقت سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر ملالہ یوسفزئی نے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے
اپنی ڈائری لکھی تھی۔ آپ اس ڈائری کی تمام قسطیں یہاں پڑھ سکتے ہیں:
پہلی قسط: سکول جانا ہے۔۔۔۔
اب طالبان نے پندرہ جنوری کے بعد
لڑکیوں کے سکول جانے پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس صورتحال میں طالبات
پر کیا گزر رہی ہے، بی بی سی ارود ڈاٹ کام ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی
کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کرے گا۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل
مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھیں گی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی:
سنیچر، تین جنوری: میں ڈر گئی اور
رفتار بڑھا دی
کل پوری رات میں نے ایسا ڈراؤنا خواب دیکھا جس میں فوجی، ہیلی کاپٹر اور طالبان دکھائی دیے۔ سوات میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد اس قسم کے خواب بار بار دیکھ رہی ہوں۔ ماں نے ناشتہ دیا اور پھر تیاری کرکے سکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ مجھےسکول جاتے وقت بہت خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ لڑکیاں سکول نہ جائیں۔
کل پوری رات میں نے ایسا ڈراؤنا خواب دیکھا جس میں فوجی، ہیلی کاپٹر اور طالبان دکھائی دیے۔ سوات میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد اس قسم کے خواب بار بار دیکھ رہی ہوں۔ ماں نے ناشتہ دیا اور پھر تیاری کرکے سکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ مجھےسکول جاتے وقت بہت خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ لڑکیاں سکول نہ جائیں۔
اسمبلی میں ہیڈ مسٹرس صاحبہ نے کہا
کہ طالبان کے خوف سے کل سے سکول کا یونیفارم ختم کیا جا رہا ہے اور آئندہ سےگھرکے
کپڑے پہن کر سکول آئیں۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر راستے میں ہمارا
سامنا طالبان سے ہو تو کیا کرنا چاہیئے۔
آج ہمارے کلاس میں ستائیس میں سے
صرف گیارہ لڑکیاں حاضر تھیں۔ یہ تعداد اس لیے گھٹ گئی ہے کہ لوگ طالبان کے اعلان
کے بعد ڈرگئے ہیں۔ میری تین سہیلیاں سکول چھوڑ کر اپنے خاندان والوں کے ساتھ
پشاور، لاہور اور راولپنڈی جاچکی ہیں۔
ایک بجکر چالیس منٹ پر سکول کی چھٹی
ہوئی۔گھر جاتے ہوئے راستے میں مجھے ایک شخص کی آواز سنائی دی جو کہہ رہا تھا: ’میں
آپ کو نہیں چھوڑونگا۔‘ میں ڈرگئی اور اپنی رفتار بڑھادی۔جب تھوڑا آگے گئی تو پیچھے
مڑ کر دیکھا تو وہ کسی اور کو فون پر دھمکیاں دے رہا تھا، میں یہ سمجھ بیھٹی کہ وہ
شاید مجھے ہی کہہ رہا ہے۔
اتوار، چار جنوری: کل سکول جانا ہے،
میرا دل دھڑک رہا ہے
آج چھٹی ہے، اس لیے میں نو بجکر چالیس منٹ پر جاگی لیکن اٹھتے ہی والد صاحب نے یہ بری خبر سنائی کہ آج پھر گرین چوک سے تین لاشیں ملی ہیں۔اس واقعہ کی وجہ سے دوپہر کو میرا دل خراب ہو رہا تھا۔ جب سوات میں فوجی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی اس وقت ہم تمام گھر والے اتوار کو پِکنک کے لیے مرغزار، فضاء گھٹ اور کانجو چلے جاتے تھے۔ اب حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ہم ڈیڑھ سال سے پِکنک پر نہیں جاسکے ہیں۔
آج چھٹی ہے، اس لیے میں نو بجکر چالیس منٹ پر جاگی لیکن اٹھتے ہی والد صاحب نے یہ بری خبر سنائی کہ آج پھر گرین چوک سے تین لاشیں ملی ہیں۔اس واقعہ کی وجہ سے دوپہر کو میرا دل خراب ہو رہا تھا۔ جب سوات میں فوجی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی اس وقت ہم تمام گھر والے اتوار کو پِکنک کے لیے مرغزار، فضاء گھٹ اور کانجو چلے جاتے تھے۔ اب حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ہم ڈیڑھ سال سے پِکنک پر نہیں جاسکے ہیں۔
ہم رات کو کھانے کے بعد سیر کے لیے
باہر بھی جایا کرتے تھے۔اب حالات کی وجہ سے لوگ شام کو ہی گھر لوٹ آتے ہیں۔ میں نے
آج گھر کا کام کاج کیا، ہوم ورک کیا اور تھوڑی دیر کے لیے چھوٹے بھائی کے ساتھ
کھیلی۔ کل صبح پھر سکول جانا ہے اور میرا دل ابھی سے دھڑک رہا ہے۔
پیر، پانچ جنوری: زرق برق
لباس پہن کر نہ آئیں۔۔۔
آج جب سکول جانے کے لیے میں نے
یونیفارم پہننے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو یاد آیا کہ ہیڈ مسٹرس نے کہا تھا کہ
آئندہ گھر کے کپڑے پہن کر سکول آجایا کریں۔ میں نے اپنی پسندیدہ گلابی رنگ کے کپڑے
پہن لیے۔ سکول میں ہر لڑکی نے گھر کے کپڑے پہن لیے جس سے سکول گھر جیسا لگ رہا
تھا۔
اس دوران میری ایک سہیلی ڈرتی ہوئی
میرے پاس آئی اور بار بار قرآن کا واسطہ دیکر پوچھنے لگی کہ ’خدا کے لیے سچ سچ
بتاؤ، ہمارے سکول کو طالبان سے خطرہ تو نہیں؟‘ میں سکول خرچ یونیفارم کی جیب میں
رکھتی تھی لیکن آج جب بھی میں بھولے سے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی تو
ہاتھ پھسل جاتا کیونکہ میرےگھر کے کپڑوں میں جیب سرے ہی نہیں۔
آج ہمیں اسمبلی میں پھر کہا گیا کہ
آئندہ سے زرق برق لباس پہن کر نہ آئیں کیونکہ اس پر بھی طالبان خفا ہوسکتے ہیں۔
سکول کی چھٹی کے بعد گھر آئی اور
کھانا کھانے کے بعد ٹیوشن پڑھا۔ شام کو میں نے ٹیلی ویژن آن کیا تو اس میں بتایا
گیا کہ شکردہ سے پندرہ روز کے بعد کرفیو اٹھالیا گیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ
ہمارے انگریزی کے استاد کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور وہ شاید کل پندرہ دن کے بعد
پڑھانے کے لیے سکول آجـائیں۔
دوسری قسط: ’شاید دوبارہ سکول نہ آسکوں‘
میں محرم الحرام کی چھٹیاں
گزارنےاپنی فیملی کے ساتھ ضلع بونیر آئی ہوں۔ بونیر مجھےبہت پسند آیا، یہاں چاروں
طرف پہاڑ اورسرسبز وادیاں ہیں۔ میرا سوات بھی تو بہت خوبصورت ہے لیکن وہاں امن
جونہیں، یہاں امن بھی ہے اور سکون بھی، نہ فائرنگ کی آواز اور نہ ہی کوئی خوف۔ ہم
سب گھر والے یہاں بہت خوش ہیں۔
آج پیر بابا کے مزار پر گئے تھے،
وہاں لوگوں کا بہت زیادہ رش تھا۔ وہ منتیں مانگنے آئے تھے اور ہم تفریح کے لیے۔
یہاں پر چوڑیاں، جھمکے، لاکٹ وغیرہ بکتے ہیں۔ میں نے شاپنگ کرنے کا سوچا تھا مگر
کچھ بھی پسند نہیں آیا۔ البتہ امی نے جھمکے اور چوڑیاں خرید لیے۔
میں نے ایک لڑکی کو سکول جاتے ہوئے
دیکھا۔ وہ چھٹی کلاس میں پڑھتی تھی۔ میں نے اسے روکا اور پوچھا تمہیں سکول جاتے
ہوئے خوف محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ اس نے پوچھا کس سے، میں نے کہا طالبان سے، اس نے
جواب دیا: ’یہاں طالبان نہیں ہیں۔‘
آج میں نے سکول میں اپنی سہیلیوں کو
بونیر کے سفر کے بارے میں بتایا۔انہوں نے کہا کہ تمہارے یہ قصے سنتے سنتے ہمارے
کان پک جائیں گے۔ ہم نے ایف ایم چینل پر تقریر کرنے والے طالبان رہنماء مولانا شاہ
دوران کی موت سے متعلق اڑائی گئی خبر پر خوب بحث کی۔انہوں نے ہی لڑکیوں کے سکول
جانے پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ مرگئے
ہیں۔کچھ نے کہا کہ، نہیں زندہ ہیں۔انہوں نے چونکہ گزشتہ رات تقریر نہیں کی تھی اسی
لیے ان کی موت کی افواہ پھیلائی گئی تھی۔ایک لڑکی نے کہا کہ وہ چھٹی پر چلے گئے
ہیں۔
جمعہ کو ہمارے ٹیوشن کی چھٹی ہوتی
ہے اس لیے ہم آج دیرتک کھیلتے رہے۔ ابھی ابھی جونہی میں ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئی تو
خبر آئی کہ لاہور میں دھماکے ہوگئے ہیں۔ میں نے کہا یا اللہ، دنیا میں سب سے زیادہ
دھماکے پاکستان میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔
آج میں سکول جاتے وقت بہت خفا تھی
کیونکہ کل سے سردیوں کی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں۔ ہیڈ مسٹرس نےچھٹیوں کا اعلان تو
کیا تو مگر مقررہ تاریخ نہیں بتائی۔ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، پہلے ہمیں ہمیشہ
چھٹیوں کے ختم ہونے کی مقررہ تاریخ بتائی جاتی تھی۔اس کی وجہ تو انہوں نے نہیں
بتائی لیکن میرا خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے پندرہ جنوری کے بعد لڑکیوں کے سکول
جانے پر پابندی کے سبب ایسا کیا گیا ہے۔
اس بار لڑکیاں بھی چھٹیوں کے بارے
میں پہلے کی طرح زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر
طالبان نے اپنے اعلان پر عمل کیا تو وہ شاید سکول دوبارہ نہ آسکیں۔
کچھ لڑکیاں پرامید تھیں کہ انشاء
اللہ فروری میں سکول دوبارہ کھل جائے گا لیکن بعض ایسی بھی تھیں جنہوں نے بتایا کہ
ان کے تعلیم جاری رکھنے کی خاطر ان کے ماں باپ نےسوات سے نقل مکانی کرنے کا فیصلہ
کیا ہے۔
آج چونکہ سکول کا آخری دن تھا اسی
لیے ہم سہیلیوں نےسکول کے گراؤنڈ میں دیر تک کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے بھی یہ
امید ہے کہ انشاء اللہ ہمارا سکول بند نہیں ہوگا لیکن پھر بھی نکلتے وقت میں نے
سکول کی عمارت پر ایسی نظر ڈالی جیسے دوبارہ یہاں نہیں آسکوں گی۔
پوری رات توپوں کی شدید گھن گرج تھی
جس کی وجہ سے میں تین مرتبہ جاگ اٹھی۔آج ہی سے سکول کی چھٹیاں بھی شروع ہوگئی ہیں
اسی لیے میں آرام سے دس بجے اٹھی۔ بعد میں میری ایک کلاس فیلو آئی جس نے میرے ساتھ
ہوم ورک ڈسکس کیا۔
آج پندرہ جنوری تھی یعنی طالبان کی
طرف سے لڑکیوں کے سکول نہ جانے کی دھمکی کی آخری تاریخ مگر میری کلاس فیلو کچھ اس
اعتماد سے ہوم ورک کر رہی ہےجیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
آج میں نے مقامی اخبار میں بی بی سی
پر شائع ہونے والی اپنی ڈائری بھی پڑھی۔ میری ماں کو میرا فرضی نام’گل مکئی‘ بہت
پسند آیا اورابو سے کہنے لگیں کہ میرا نام بدل کر گل مکئی کیوں نہیں رکھ لیتے۔
مجھے بھی یہ نام پسند آیا کیونکہ مجھے اپنا نام اس لیے اچھا نہیں لگتا کہ اسکے
معنی ’غمزدہ‘ کے ہیں۔
ابو نے بتایا
کہ چند دن پہلے بھی کسی نے ڈائری کی پرنٹ لیکر انہیں دکھائی تھی کہ یہ دیکھو سوات
کی کسی طالبہ کی کتنی زبردست ڈائری چھپی ہوئی ہے۔ ابو نے کہا کہ میں نے
مسکراتےہوئے ڈائری پر نظر ڈالی اور ڈر کے مارے یہ بھی نہ کہہ سکا کہ ’ہاں یہ تو
میرے بیٹی کی ہے۔‘
آج ابو نے بتایا کہ حکومت ہمارے
سکولوں کی حفاظت کرے گی۔ وزیراعظم نے بھی ہمارے بارے میں بات کی ہے۔میں بہت خوش
ہوئی۔لیکن اس سے تو ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
یہاں ہم سوات میں روزانہ سنتے ہیں
کہ فلاں جگہ پر اتنے فوجی مرگئے ہیں، اُدھر اتنے اغواء ہوگئے۔ پولیس والے تو آج کل
شہر میں نظر آہی نہیں رہے ہیں۔ ہمارے ماں باپ بھی بہت ڈرے ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ
جب تک طالبان خود ہی ایف ایم چینل پر اپنا اعلان واپس نہیں لیتے وہ ہمیں سکول نہیں
بھیجیں گے۔
خود فوج کی وجہ سے بھی ہماری تعلیم
متاثر ہوئی ہے۔آج ہمارے محلے کا ایک لڑکا سکول گیا تھا تو وہاں پر استاد نےاس سے
کہا کہ تم واپس گھر چلے جاؤ کیونکہ کرفیو لگنے والا ہے۔وہ جب واپس آیا تو پتہ چلا
کہ کرفیو نہیں لگ رہا بلکہ اس راستے سے فوجی قافلے نے گزرنا تھا اس لیے سکول کی
چھٹی کردی گئی۔
آج پھر پانچ سکولوں کو بموں سے اڑا
دیا گیا۔ ان میں سے ایک سکول تو میرے گھر کے قریب ہے۔ میں حیران ہوں کہ یہ سکول تو
بند تھے پھر کیوں اِنہیں آگ لگائی گئی۔ طالبان کی ڈیڈ لائن کے بعد تو کسی نے بھی
سکول میں قدم نہیں رکھا تھا۔ آخر یہ لوگ بلڈنگ کو کیوں سزا دے رہے ہیں۔
آج میں اپنی ایک سہیلی کے گھر گئی
تھی اس نے کہا کہ چند دن پہلے مولانا شاہ دوران کے چچا کو کسی نے قتل کر دیا تھا
شاید اسی لیے طالبان نے غصے میں آ کر ان سکولوں کو جلادیا ہے۔وہ کہہ رہی تھی کہ
طالبان کو کسی نے تکلیف پہنچائی ہے جب انہیں تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پھر اس طرح کا
غصہ ہمارے سکولوں پر نکالتے ہیں۔
فوجی بھی کچھ نہیں کررہے ہیں۔وہ
پہاڑوں میں اپنے مورچوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔بکریاں ذبح کرتے ہیں اور مزے لے کر
کھاتے ہیں۔
سکول کے بند ہونے کے بعد گھر پر
بیٹھ کر بہت بور ہوگئی ہوں۔میری بعض سہیلیاں سوات سے چلی گئی ہیں۔سوات میں آجکل
حالات پھر بہت خراب ہیں۔ڈر کے مارے گھر سے باہرنہیں نکل سکتی۔رات کو بھی مولانا
شاہ دوران نے ایف ایم چینل پر اپنی تقریر میں یہ دھمکی دی کہ لڑکیاں گھر سے نہ
نکلیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج جس سکول کو مورچے کے طور پر استعمال کرے گی وہ
اسے دھماکے سے اڑادیں گے۔
ابو نے آج گھر میں ہمیں بتایا کہ
حاجی بابا میں لڑکیوں اور لڑکوں کے ہائی سکولوں میں بھی فوجی آگئے ہیں۔اللہ
خیرکرے۔مولانا شاہ دوران نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ کل تین چوروں کو کوڑے
لگائے جائیں گے جو بھی تماشہ کرنا چاہتاہے وہ پہنچ جائے۔ میں حیران ہوں کہ ہمارے
ساتھ اتنا ظلم ہواہے پھر لوگ کیوں تماشہ کرنے جاتے ہیں۔
فوج بھی کیوں طالبان کو ایسا کرنے
سے نہیں روکتی۔ میں نے دیکھا ہے کہ جہاں فوج ہوگی وہاں طالب ہوگا مگر جہاں طالب
ہوگا وہاں فوجی نہیں جائے گا۔
سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل
مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھ رہی ہیں۔ ’سوات کی طالبہ‘ سلسلے کی چوتھی
کڑی:
ہمارے سالانہ امتحانات چھٹیاں ختم
ہونے کے بعد ہونگے، لیکن یہ اس وقت ہونگے جب طالبان لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت
دیں تیاری کرنے کے لیے ہمیں کچھ چپٹر بتائے گئے ہیں مگر میرا دل پڑھنے کو نہیں
کررہا ہے۔
کل سے فوج نے بھی مینگورہ میں
تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ جب درجنوں سکول تباہ ہوگئے
اور سینکڑوں بند ہوئے تو اب جاکے فوج کو حفاظت کا خیال آیا۔اگر وہ صحیح آپریشن
کرتے تو یہ نوبت پیش ہی نہ آتی۔
مسلم خان نے کہا ہے کہ وہ ان تعلیمی
اداروں پر حملہ کریں گے جن میں فوجی ہونگے۔اب تو سکول میں فوجیوں کو دیکھ کر ہمارا
خوف اور بھی بڑھ جائے گا۔
ہمارے سکول میں ایک بورڈ لگا ہواہے
جس سے آنر بورڈ کہا جاتا ہے۔اس بورڈ پر ہر سال اس طالبہ کا نام لکھا جاتا ہے جو
سالانہ امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتی ہے۔لگتا ہے کہ اس بار آنر بورڈ پر
کسی کے نام کے لکھنے کا موقع آئے ہی نہیں۔
آج صبح سویرے توپ کے گولوں کی
آوازیں سن کر نیند سے جاگ اٹھی۔ بہت زیادہ گولہ باری ہوئی ہے۔ پہلے ہم ہیلی
کاپٹروں کے شور سے ڈرتے تھے اور اب توپ کے گولوں سے۔
مجھے یاد ہے کہ جب آپریشن شروع ہوا
تھا اس وقت جب پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر ہمارے گھروں کے اوپر سے گزرے تھے تو ہم خوف
کے مارے چھپ گئے تھے۔ میرے محلے کے تمام بچوں کی یہی حالت تھی۔
ایک دن ہیلی کاپٹروں سے ٹافیاں
پھینکی گئیں اور پھر یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔اب میرے بھائی اور محلے کے
دوسرے بچے جونہی ہیلی کاپٹر کی آواز سنتے ہیں تو وہ باہر نکل کر ٹافیوں کے پھینکے
جانے کا انتظار کرتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔
تھوڑی دیر پہلے ابو نے خوشخبری
سنائی کہ وہ ہمیں کل اسلام آباد لیکر جارہے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی بہت خوش ہیں۔
ابو نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم
کل ہی اسلام آباد آگئے۔ راستے میں ہمیں بہت ڈر لگ رہا تھا کیونکہ میں نے سنا تھا
کہ طالبان رستے میں تلاشی لیتے ہیں۔ لیکن اچھا ہوا کہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
اسکے بجائے فوج نے ہماری تلاشی لی۔
جب سوات کا علاقہ ختم ہوگیا تو ہمارا خوف ختم ہوگیا۔ ہم اسلام آباد میں ابو کے ایک
دوست کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔
میں پہلی بار اسلام آباد آئی ہوں،
یہ ایک خوبصورت شہر ہے، یہاں بڑے بڑے بنگلے اور صاف ستھرے سڑکیں ہیں لیکن اس میں
وہ نیچرل بیوٹی نہیں ہے جو میرے سوات میں ہے۔
ابو ہمیں لوک ورثہ لیکر گئے۔یہاں
میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔سوات میں بھی اسی قسم کا میوزیم ہے لیکن معلوم
نہیں کہ وہ محفوظ رہ بھی سکے گا یا نہیں؟
لوک ورثہ سے نکل کر ابو نے ایک
بوڑھے شخص سے ہمارے لیے پاپ کارن خریدا۔اس شخص نے جب پشتو میں بات کی تو ابو نے ان
سے پوچھا کہ کیا آپ اسلام آباد کے رہنے والے ہیں تو اس بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ
آپکو کیا لگتا ہے کہ اسلام آباد پشتونوں کا ہوسکتا ہے؟
اس شخص نے
بتایا کہ اس کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے جہاں پر فوجی آپریشن شروع ہوگیا ہے۔ ’میں
گھر بار چھوڑ آکر یہاں آیا ہوں۔‘ اس وقت میں نے ابو اور امی کی آنکھوں میں آنسو
دیکھ لیے۔
سوات کی جنگ سے ہم نےصرف اتنا فائدہ
اٹھایا کہ ابو نے زندگی میں پہلی مرتبہ ہم سب گھر والوں کو مینگورہ سے نکال کر
مختلف شہروں میں خوب گھمایا پھرایا۔ہم کل اسلام آباد سے پشاور آگئے، وہاں پر ہم نے
اپنے ایک رشتہ دارکے گھر میں چائے پی اوراس کے بعد ہمارا ارادہ بنوں جانے کا تھا۔
میرا چھوٹا بھائی جس کی عمر پانچ
سال ہے ہمارے رشتہ دار کے گھر کے صحن میں کھیل رہا تھا۔ابو نے جب اسے دیکھ کر
پوچھا کیا کر رہے ہو بچوڑی( بچے) تو اس نے کہا ’ مٹی سے بابا قبر بنا رہا ہوں‘۔
بعد میں ہم اڈے گئے اور وہاں سے ایک
ویگن میں بیٹھ کر بنوں کے لیے روانہ ہوگئے۔ ویگن پرانی تھی اور ڈرائیور بھی راستے
میں ہارن بہت بجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب خراب سڑک کی وجہ سے ویگن ایک کھڈے میں
گرگئی تو اس وقت اچانک ہارن بھی بج گیا تو میرا ایک دوسرا بھائی جو دس سال کا ہے
اچانک نیند سے بیدار ہوا۔
وہ بہت ڈرا ہوا تھا جاگتے ہی امی سے
پوچھنے لگا’ ابئی( امی) ’کیا کوئی دھماکہ ہوگیا ہے۔’
رات کو ہم بنوں پہنچ گئے جہاں پر
میرے ابو کے دوست پہلے سے ہی ہمارا انتظار کررہے تھے۔میرے ابو کے دوست بھی پشتون
ہیں مگر ان کے گھر والوں کی زبان (بنوسی لہجہ) ہمیں پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی ہے۔
ہم بازار گئے پھر پارک ۔یہاں پر
خواتین جب باہر نکلتی ہیں تو انہیں ٹوپی والا برقعہ ( شٹل کاک) لازمی پہننا
ہوگا۔میری امی نے تو پہن لیا مگر میں نے انکار کردیا کیونکہ میں اس میں چل نہیں
سکتی ہوں ۔
سوات کے مقابلے میں یہاں امن زیادہ
ہے۔ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ یہاں بھی طالبان ہیں مگر جنگیں اتنی نہیں ہوتیں
جتنی سوات میں ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے یہاں بھی لڑکیوں کے سکولوں کو
بند کرنے کی دھمکی دی تھی مگر پھر بھی سکول بند نہیں ہوئے۔
بنوں سے پشاور آتے ہوئے راستے میں
مجھے سوات سے اپنی ایک سہیلی کا فون آیا۔ وہ بہت ڈری ہوئی تھیں، مجھ سے کہنے لگی
حالات بہت خراب ہیں تم سوات مت آنا۔ اس نے بتایا کہ فوجی کارروائی شدید ہوگئی ہے
اور مارٹر گولوں سے صرف آج سینتیس لوگ مرے ہیں۔
شام کو ہم پشاور پہنچے اور بہت تھکے
ہوئے بھی تھے۔میں نے ایک نیوز چینل لگایا تو وہ بھی سوات کی بات کر رہا تھا۔اس میں
لوگوں کو ہجرت کرتےہوئے دکھایا گیا ،لوگ پیدل جارہے تھے مگر وہ خالی ہاتھ تھے۔
میں نے سوچا کہ ایک وہ وقت تھا جب
باہر سے لوگ تفریح کے لیے سوات آیا کرتے تھے اور آج سوات کے لوگ اپنے علاقے کو
چھوڑ کرجارہے ہیں۔
میں نے دوسرا چینل لگایا جس پر ایک
خاتون کہہ رہی تھی کہ ’ ہم شہید بے نظیر بھٹو کے خون کا حساب لیں گے۔’ میں نے پاس
بیٹھے ابو سے پوچھا کہ یہ سینکڑوں سواتیوں کے خون کا حساب کون لے گا؟
آج ہمارے سکول کھلنے کا دن تھا۔صبح
اٹھتے ہی سکول بند ہونے کا خیال آیا تو خفا ہوگئی۔اس سے پہلے جب بھی سکول مقررہ
تاریخ پر نہ کھلتا تو ہم خوش ہو جایا کرتے تھے۔ اس دفعہ ایسا نہیں ہے کیونکہ مجھے
ڈر ہے کہ کہیں ہمارا سکول طالبان کے حکم پر ہمیشہ کے لیے بند نہ ہوجائے۔
ابو نے بتایا کہ پرائیویٹ سکولوں نے
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف لڑکوں کے سکولوں کو آٹھ فروری تک نہ کھولنے کا
اعلان بھی کیا۔ابو نے بتایا کہ لڑکوں کے پرائیویٹ سکولوں کے دروازوں پر یہ نوٹس
لگایا گیا ہے کہ سکول نو فروی کو کھل جائیں گے۔
انہوں نے
بتایا کہ لڑکیوں کے سکول پر یہ نوٹس نہیں لگا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے سکول اب
نہیں کھلیں گے۔
دوپہر کو میں اور میرا چھوٹا بھائی
ابو کے ساتھ مینگورہ کے لیے روانہ ہوگئے۔امی لوگ پہلے ہی جاچکے تھے۔ بیس دن کے بعد
مینگورہ جاتے ہوئے خوشی بھی ہو رہی تھی اور ساتھ میں ڈر بھی لگ رہا تھا۔ مینگورہ
میں داخل ہونےسے پہلےجب ہم قمبر کےعلاقےسے گزر رہے تھے تو وہاں پرعجیب قسم کی
خاموشی تھی۔
بڑی بڑی داڑھیوں اور لمبے لمبے
بالوں والے کچھ لوگوں کے سوا وہاں پر کوئی اور نظر نہیں آیا۔ شکل و صورت سے یہ لوگ
طالبان لگ رہے تھے۔ میں نے کچھ مکانوں کو بھی دیکھا جن پر گولوں کے نشانات تھے۔
مینگورہ میں داخل ہوئے تو وہاں پر
بھی پہلے کی طرح رش نہیں تھا۔ ہم امی کے لیے تحفہ خریدنے شاہ سپر مارکیٹ گئے تو وہ
بھی بند ہوگیا تھا حالانکہ پہلے یہ مارکیٹ دیر تک کھلی رہتی تھی۔ باقی دکانیں بھی
بند ہوگئی تھیں۔ ہم نے امی کو مینگورہ آنے کا نہیں بتایا تھا کیونکہ ہم نے انہیں
سر پرائز دینے کا فیصلہ کیا تھا۔گھر میں داخل ہوئے تو امی بہت حیران ہوئیں۔
میں نے جب اپنی الماری کھولی تو
وہاں پر پڑے سکول کے یونیفارم، بستے اور جیومیٹری بکس کو دیکھ کر مجھے بہت دکھ
ہوا۔ کل تمام پرائیویٹ سکولوں کے بوائز سیکشن کھل رہے ہیں۔ ہم لڑکیوں کی تعلیم پر
تو طالبان نے پابندی لگا رکھی ہے۔
میں نے جیومیٹری بکس کھولا تو اس
میں دو سو روپے پڑے تھے۔ یہ سکول کے جرمانے کے پیسے ہیں۔ جب کوئی لڑکی سکول نہ آتی
یا کبھی لیٹ آتی تو ان سے جرمانے کے پیسے لینے کی ذمہ داری ٹیچر نے میری لگائی
تھی۔
الماری میں ہمارے کلاس کے بورڈ کا
مارکر بھی پڑا تھا جس سے بھی میں اپنے ساتھ رکھا کرتی تھی۔ سکول کی بہت سی باتیں
یاد آئیں، سب سے زیادہ لڑکیوں کے آپس کے جھگڑے۔
میرے چھوٹے بھائی کا سکول بھی کل ہی
کھل رہا ہے،اس نے بالکل ہوم ورک نہیں کیا ہے۔ وہ بہت پریشان ہے اور سکول جانا نہیں
چاہ رہا۔ امی نے ویسے کل کرفیو لگنے کی بات کی تو اس نے پوچھا کیا کل سچ مچ کرفیو
لگ رہا ہے۔امی نے جب ’ہاں‘ کہا تو اس نے خوشی سے ناچنا شروع کر دیا۔
سوات میں لڑکوں کے سکول کھل چکے ہیں
اور طالبان کی طرف سے پرائمری تک لڑکیوں کے سکول جانے سے پابندی اٹھائے جانے کے
بعد لڑکیوں نے بھی سکول جانا شروع کر دیا ہے۔ ہمارے سکول میں پانچویں تک لڑکے اور
لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔
میرے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ آج اس
کے کلاس کے انچاس میں سےصرف چھ بچے حاضر تھے جس میں سے صرف ایک طالبہ تھی۔اسمبلی
میں بھی ستر کے قریب بچے تھے۔ ہمارے سکول کی کل تعداد سات سو ہے۔
آج ہماری ایک نوکرانی آئی تھی جو
ہفتے میں ایک بار ہمارے کپڑے دھونے آتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور خاتون بھی تھی۔ نوکرانی
کا تعلق ضلع اٹک سے ہے لیکن وہ برسوں سے یہاں رہ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا: ’حالات
بہت خراب ہیں اور میرے خاوند نے کہا ہے کہ تم واپس اٹک چلی جاؤ۔‘
انہوں نے کہا کہ اتنے برسوں تک یہاں
رہ کر سوات اب مجھے اپنا گھر جیسا لگ رہا ہے۔اپنے شہر اٹک جاتے ہوئے مجھے لگتا ہے
کہ میں اپنا شہر چھوڑ کر ایک انجان شہر جا رہی ہوں۔ان کے ساتھ جو عورت آئی تھی وہ
سوات کی ہے اور اس نے امی کو ایک پشتو ٹپہ سنایا۔
عالم پہ چار لہ مُلکہ نہ زی
یا ڈیر غریب شی یا د یار لہ غمہ زی نا
( ترجمہ: لوگ مرضی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتے، یا بہت زیادہ غربت یا پھر محبوب انہیں ترکِ وطن پر مجبور کرتی ہے۔)
یا ڈیر غریب شی یا د یار لہ غمہ زی نا
( ترجمہ: لوگ مرضی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتے، یا بہت زیادہ غربت یا پھر محبوب انہیں ترکِ وطن پر مجبور کرتی ہے۔)
آج بھی سارا دن خوف میں گزرا۔ بوریت
بھی بہت تھی۔ گھر میں اب ٹیلی ویژن بھی نہیں ہے۔ جب ہم سردیوں کی چھٹیوں میں بیس
دن کے لیے مینگورہ سے باہر گئے تھے تو اس وقت ہمارے گھر میں چوری ہوگئی تھی۔ پہلے
اس قسم کی چوریاں نہیں ہوتی تھیں لیکن جب سے حالات خراب ہوئے ہیں ایسے واقعات بھی
بڑھ گئے ہیں۔
شکر ہے ہمارے گھر میں نہ نقدی تھی
اور نہ ہی سونا، میرا بریسلٹ اور پائل بھی غائب تھے لیکن بعد میں مجھے کہیں اور
نظر آئے۔ شاید چور سونا سمجھ کر چرانا چاہ رہے تھے مگر بعد میں انہیں سمجھ آگئی
ہوگی کہ یہ تو نقلی ہیں۔
مولانا فضل اللہ نے پچھلی رات ایف
ایم چینل پر اپنی تقریر میں کہا کہ مینگورہ میں پولیس اسٹیشن پر جو خود کش حملہ
ہوا تھا اس سے پریشر ککر کا دھماکہ سمجھ لو، اس کے بعد بڑا دیگ پھٹے گا اور پھر
ٹینکر کا دھماکہ ہوگا۔
رات کو ابو نے سوات میں ہونے والے
تمام واقعات سنائے۔ آج کل باتوں میں ہماری زبان پر فوجی، طالبان، راکٹ، گولہ باری،
شیلنگ، مولانا فضل اللہ، مسلم خان، پولیس، ہیلی کاپٹر، ہلاک، زخمی جیسے الفاظ
زیادہ ہوتے ہیں۔
کل ساری رات شدید گولہ باری ہوتی
رہی۔اس حال میں بھی میرے دونوں بھائی سوئے ہوئے تھے مگر مجھے بالکل نیند نہیں آرہی
تھی۔میں ایک دفعہ ابو کے پاس گئی وہاں آرام نہیں آیا پھر جاکر امی کے ساتھ لیٹ
گئی۔ اس کے باوجود تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ جاتی لیکن پھر دوبارہ جاگ اٹھتی۔
اسی لیے صبح دیر سے جاگی۔ سہ پہر کو
ٹیوشن پڑھانے والا ٹیچر آیا، اس کے بعد قاری صاحب نے آکر دینی سبق پڑھایا۔ شام تک
بھائیوں کے ساتھ کبھی لڑ کر کبھی صلح کر کے کھیلتی رہی۔ ٹی وی نہ ہونے سے کچھ دیر
تک کمپیوٹر پر گیم بھی کھیلتی رہی۔
جب طالبان نے کیبل پر پابندی نہیں
لگائی تھی اس وقت میں سٹار پلس کے ڈرامے دیکھا کرتی تھی اس میں ’راجہ کی آئے گی
بارات‘ والا ڈرامہ مجھے بہت پسند تھا۔ مجھےکامیڈی بھی بہت پسند ہے، پاکستانی چینل
جیو کا مزاحیہ پروگرام’ ہم سب امید سے ہیں‘ کو بھی میں بہت شوق سے دیکھا کرتی تھی۔
آج جمعرات ہے یعنی شبِ جمعہ ہے اس
لیے مجھے ڈر بھی بہت لگ رہا ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ اکثر دیکھا گیا ہے شبِ جمعہ
یا جمعہ کے دن خود کش حملے زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودکش حملہ آور سمجھتا
ہے کہ اسلامی طورپر یہ ایک مقدس دن ہے اور اس روز حملہ کرنے سے اسے ثواب زیادہ ملے
گا۔
آج موسم بہت اچھا تھا۔ بہت زیادہ
بارش ہوئی اور جب بارش ہوتی ہے تو میرا سوات اور بھی خوبصورت لگتا ہے۔مگر صبح
جاگتے ہی امی نے بتایا کہ آج کسی نے رکشہ ڈرائیور اور بوڑھے چوکیدار کو قتل کردیا
ہے۔یہاں اب زندگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
آس پاس کے علاقے سے روزانہ سینکڑوں
لوگ مینگورہ آرہے ہیں جبکہ مینگورہ کے لوگ دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے ہیں۔جو امیر
ہیں وہ سوات سے باہر گئے ہیں اور جو غریب ہیں وہ یہاں سے کہیں اور جا نہیں سکتے۔
ہم نے اپنے تایا زاد بھائی کو فون
کیا کہ وہ اس اچھے موسم میں اپنی گاڑی میں ہمیں مینگورہ کا چکر لگوائیں۔وہ آیا
لیکن جب ہم باہر نکلے تو بازار بند تھا، سڑکیں سنسان تھیں۔ہم قمبر کے علاقے کی طرف
جا نا چاہ رہے تھےکہ کسی نے بتایا کہ وہاں پر ایک بہت بڑا جلوس نکلا ہوا ہے۔
رات کو ایف ایم اسٹیشن پر مولانا
فضل اللہ نے تقریر کی اور وہ دیر تک روتے رہے۔ وہ آپریشن کے بند ہونے کا مطالبہ کر
رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ہجرت نہ کریں بلکہ اپنے گھروں میں واپس
آجائیں۔
آج پشاور اورگاؤں سے مہمان آئے ہوئے
تھے۔ دوپہر کو جب ہم کھانا کھا رہے تھے کہ باہر بہت زیادہ فائرنگ شروع ہوئی۔ اتنی
زبردست فائرنگ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ ہم سب ڈر گئے، سوچا کہ شاید
طالبان آگئے ہیں۔ میں بھاگ کر ابو کے پاس گئی تو انہوں نے کہا ’ڈرو مت بیٹی یہ امن
کی فائرنگ ہے‘۔
ابو نے بتایا کہ آج اخبار میں آیا
ہے کہ کل حکومت اور طالبان کے درمیان سوات کے بارے میں امن معاہدہ ہو رہا ہے اس
لیے لوگ خوشی سے فائرنگ کررہے ہیں۔ لیکن رات کو جب طالبان کے ایف ایم پر بھی امن
معاہدے ہونے کا اعلان ہوا تو دوپہر سے بھی زیادہ زبردست فائرنگ ہوئی۔ کیونکہ لوگ
حکومت سے زیادہ طالبان کے اعلان پر یقین کرتے ہیں۔
جب ہم نے بھی یہ اعلان سنا تو پہلے
امی رونے لگی پھر ابو، میرے اور دو چھوٹے بھائیوں کے آنکھوں سے بھی آنسو نکل گئے۔
آج میں صبح اٹھتے ہی بہت زیادہ خوش
تھی کیونکہ حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ جو ہو رہا تھا۔ آج ہیلی کاپٹر
کی پرواز بھی بہت زیادہ نیچے تھی۔ میرے ایک کزن نے کہا کہ جیسے جیسے امن آرہا ہے
ویسے ویسے ہیلی کاپٹر کی پرواز بھی نیچے ہو رہی ہے۔
دوپہر کو امن معاہدے کی خبر سن کر لوگوں
نے مٹھائیاں بانٹیں۔ میری ایک سہیلی نے مجھے مبارکباد کا فون کیا، اس نے کہا کہ اب
اسے گھر سے نکلنے کا موقع ملے گا کیونکہ وہ کئی مہینوں سے ایک ہی کمرے میں بند رہی
ہے۔ہم دودنوں اس بات پر بھی بہت خوش تھے کہ شاید اب لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھل
جائیں۔
آج سے میں نے امتحانات کی تیاریاں
دوبارہ شروع کر دی ہیں کیونکہ امن معاہدے کے بعد لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھلنے کی
امید پیدا ہوگئی ہے۔ آج میرے ٹیوشن پڑھانے والی ٹیچر بھی نہیں آئی کیونکہ وہ کسی
منگنی میں شرکت کرنے گئی تھی۔
میں جب اپنے کمرے میں آئی تو میرے
دو چھوٹے بھائی آپس میں کھیل رہے تھے۔ ایک کے پاس کھلونےوالا ہیلی کاپٹر تھا اور
دوسرے نے کاغذ سے بندوق بنائی ہوئی تھی۔ایک کہہ رہا تھا کہ فائر کرو دو سرا پھر
کہتا پوزیشن سنبھالو۔میرے ایک بھائی نے ابو سے کہا کہ ’میں ایٹم بم بناؤں گا‘۔
آج سوات میں مولانا صوفی محمد بھی آئے
ہوئے ہیں، میڈیا والے بھی زیادہ تعداد میں آئے ہیں۔ شہر میں بہت زیادہ رش ہے۔
بازار کی رونق واپس لوٹ آئی ہے۔خدا کرے کہ اس دفعہ معاہدہ کامیاب ہو۔ مجھے تو بہت
زیادہ امید ہے لیکن پھر بھی اگر اور کچھ نہیں ہوا تو کم ازکم لڑکیوں کے سکول تو
کھل جائیں گے۔
آج میں بازار گئی تھی، وہاں بہت
زیادہ رش تھا۔ لوگ امن معاہدے پر بہت خوش ہیں۔ آج بہت عرصے کے بعد میں نے بازار
میں ٹریفک جام دیکھا مگر رات کو ابو نے بتایا کہ سوات کے ایک صحافی کو نامعلوم
افراد نے قتل کردیا ہے۔ امی کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ہم سب کی امن آنے کی امیدیں بھی
ٹوٹ گئیں۔
آج ابو نے ناشتہ تیار کرکے دیا
کیونکہ امی کی طبیعت کل سے ہی خراب ہے۔ انہوں نے ابو سے گلہ بھی کیا کہ انہیں
صحافی کی موت کی خبر کیوں سنائی۔میں نے چھوٹے بھائیوں کو کہا کہ ہم اب جنگ کی نہیں
امن کی باتیں کریں گے۔ آج پتہ چلا کہ ہماری ہپیڈ مسٹرس نے اعلان کیا ہے کہ گرلز
سیکشن کے امتحانات مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونگے۔میں نے بھی آج سے امتحان کی تیاری
مزید تیز کردی ہے۔
سوات میں حالات رفتہ رفتہ صحیح ہو
رہے ہیں۔ فائرنگ اور توپخانے کے استعمال بھی بہت حد تک کمی آئی ہے۔ لیکن لوگ اب
بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں امن معاہدہ ٹوٹ نہ جائے۔
لوگ ایسی افواہیں بھی پھیلارہے ہیں
کہ طالبان کے کچھ کمانڈر اس معاہدے کو نہیں مان رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آخری
دم تک لڑیں گے۔ایسی افواہیں سن کر دل دھڑکنےلگتا ہے۔ آخر وہ ایسا کیوں کررہے
ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم جامعہ حفصہ اور لال مسجد کا بدلہ لینا چاہتے ہیں لیکن اس
میں ہمارا کیا قصور ہے جنہوں نے یہ آپریشن کیا تھا ان سے یہ لوگ کیوں انتقام نہیں
لیتے۔
ابھی کچھ دیر پہلے مولانا فضل اللہ
نے ایف ایم پر اعلان کیا کہ لڑکیوں کے سکول پر پابندی سے متعلق اپنا فیصلہ واپس
لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لڑکیاں امتحانات تک جو سترہ مارچ سے شروع ہو رہے ہیں
سکول جا سکتی ہیں مگر انہیں پردہ کرنا ہوگا۔
میں یہ سن کر بہت زیادہ خوش
ہوئی۔میں یقین نہیں کر سکتی تھی کہ ایسا بھی کبھی ہوسکے گا۔
آج ہم شاپنگ کرنے کے لیے خواتین
مارکیٹ گئے۔ راستے میں ہمیں بہت زیادہ خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ طالبان نے
خواتین کی بازاروں میں شاپنگ کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ہم مینگورہ کی چینہ
مارکیٹ گئے جہاں پر صرف خواتین کی ضرورت کی چیزیں بکتی ہیں۔
مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی حیران
ہوگئے کہ وہاں پر چند ہی خواتین شاپنگ کرنے آئی تھیں۔پہلے جب ہم یہاں آتے تھےتو
خواتین کا اتنا زیادہ رش ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو دھکا دے کر اپنے لیے راستہ
بناتی تھیں۔ مارکیٹ میں کچھ دکانیں بند تھیں اور بعض پر لکھا ہوا تھا’ دکان برائے
فروخت‘۔ اور جو کھلی بھی تھیں تو ان میں سامان کم پڑا تھا اور وہ بھی بہت پرانا۔
میں آج اٹھتے ہی بہت زیادہ خوش تھی
کہ آج سکول جاؤں گی۔سکول گئی تو دیکھا کچھ لڑکیاں یونیفارم اور بعض گھر کے کپڑوں
میں آئی ہوئی تھیں۔اسمبلی میں زیادہ تر لڑکیاں ایک دوسرے سے گلے مل رہی تھیں اور
بہت زیادہ خوش دکھائی دے رہی تھیں۔
اسمبلی ختم ہونے کے بعد ہیڈ مسٹرس
نے بتایا کہ تم لوگ پردے کا خصوصی خیال رکھا کرو اور برقعہ پہن کر آیا کرو کیونکہ
طالبان نے لڑکیوں کے سکول جانے کی اجازت دینے میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ لڑکیاں
پردے کا خیال رکھیں۔
ہماری کلاس میں صرف بارہ لڑکیاں آئی
تھیں کیونکہ کچھ سوات سے نقل مکانی کر چکی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جنہیں اپنے والدین
خوف کی وجہ سے سکول جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ میری چار سہیلیاں پہلے ہی سوات
چھوڑ کر جا چکی ہیں اور آج ایک اور نے بھی کہا کہ وہ لوگ بھی راولپنڈی منتقل ہو
رہے ہیں۔ میں بہت خفا ہوئی اور ان سے کہا بھی کہ اب تو وہ رک جائیں کیونکہ امن
معاہدہ ہوگیا ہے اور حالات بھی آہستہ آہستہ ٹھیک ہورہے ہیں مگر وہ کہہ رہی تھی کہ
نہیں حالات کا کوئی بھروسہ نہیں۔
مجھے بہت دکھ ہوا کہ میری چار
سہیلیاں پہلے ہی جاچکی ہیں اور صرف ایک رہ گئی تھی اب وہ بھی چھوڑ کر جا رہی ہے۔
امی بیمار ہیں اور ابو کسی میٹنگ کے
سلسلے میں سوات سے باہر گئے ہوئے ہیں اس لیے صبح میں نے ہی ناشتہ تیار کیا اور پھر
سکول گئی۔ آج ہم نے کلاس میں بہت زیادہ مستی کی ویسے کھیلے جیسے پہلے کھیلا کرتے
تھے۔
آج کل ہیلی کاپٹر بھی زیادہ نہیں
آتے اور ہم نے بھی فوج اور طالبان کے بارے میں زیادہ باتیں کرنا چھوڑ دی ہیں۔ شام
کو امی، میری کزن اور میں برقعہ پہن کر بازار گئے۔ ایک زمانے میں مجھے برقعہ پہننے
کا بہت شوق تھا لیکن اب اس سے تنگ آئی ہوئی ہوں کیونکہ مجھ سے اس میں چلا نہیں
جاسکتا۔
سوات میں آجکل ایک بات مشہور ہوگئی
ہے کہ ایک دن ایک عورت شٹل کاک برقعہ پہن کر کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں گر پڑی۔
ایک شخص نے آگے بڑھ کر جب اسے اٹھانا چاہا تو عورت نے منع کرتے ہوئے کہا ’رہنے دو
بھائی مت اٹھاؤ تاکہ مولانا فضل اللہ کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے‘۔
ہم جب مارکیٹ
میں اس دکان میں داخل ہوئے جس سے ہم اکثر شاپنگ کرتے ہیں تو دکاندار نے ہنستے ہوئے
کہا کہ میں تو ڈر گیا کہ کہیں تم لوگ خود کش حملہ تو کرنے نہیں آئے ہو۔وہ ایسا اس
لیے کہہ رہے تھے کہ اس پہلے ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا بھی ہے کہ خود کش حملہ آور نے
برقعہ پہن کر حملہ کیا ہے۔
آج سکول گئی تو اپنی دو سہیلیوں کو
دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ آپریشن کے دوران دونوں راولپنڈی چلی گئی تھیں۔ انہوں
نے بتایا کہ راولپنڈی میں امن بھی تھا اور زندگی کی دیگر سہولیات بھی اچھی تھیں
مگر ہم انتظار کررہے تھے کہ کب سوات میں امن آئے گا اور سکول کھلیں گے تاکہ ہم
واپس چلے جائیں۔
آج ہماری ایک ٹیچر موٹر وے کے بارے
میں سبق پڑھا رہی تھیں اور وہ مثال دینے کے لیے سوات کے چہار باغ کے علاقے کا نام
بار بار لیتی رہیں۔ میں نے پوچھا میڈم آپ بار بار کیوں چہار باغ کی مثال دے رہی
ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں چہار باغ میں رہتی تھی وہاں گھر پر مارٹر گولے لگے تو
ہم مینگورہ منتقل ہوگئے۔ اب اپنے چہار باغ کی بہت یاد آرہی ہے اس لیے میری زبان پر
اس کا نام آجاتا ہے۔ ہمارے محلے سے بھی لوگوں نے نقل مکانی کی تھی اور آج ایک
پڑوسی گھر واپس آگئے۔
ہماری کلاس میں لڑکیوں کی تعداد اب
رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ آج ستائیس میں سے انیس لڑکیاں آئی ہوئی تھیں۔ نو مارچ سے
امتحانات شروع ہو رہے ہیں اس لیے ہم زیادہ وقت پڑھنے میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج خواتین کے ساتھ چینہ مارکیٹ گئی
تھی اور وہاں میں نے خوب شاپنگ کی کیونکہ وہاں ایک دوکاندار اپنی دوکان ختم کر رہا
ہے۔ وہ کم قیمت پر چیزیں بیچ رہا ہے۔ چینہ مارکیٹ میں زیادہ تر دوکانیں اب بند
ہوگئی ہیں۔
آج کل مارٹر گولوں کی آوازیں بھی
ختم ہوگئی ہیں لہٰذا رات کو اچھی طرح سے سو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ طالبان اب بھی
اپنے علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ وہ بےگھر ہونے والے افراد کے لیے آنے والا
امدادی سامان بھی لوٹ لیتے ہیں۔
میری ایک سہیلی نے کہا کہ اس کے
بھائی نے اپنے ایک جاننے والے کو ایک رات طالبان کے ساتھ گاڑیوں کی تلاشی لیتے
ہوئے دیکھا تو حیران ہوا۔ ان کے بھائی کا کہنا تھا کہ یہ لڑکا صبح کو مزدوری کرتا
ہے اور رات کو طالبان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے کہا میں نے ان سے پوچھا کہ میں تو
تمہیں جانتا ہوں تم تو طالب نہیں ہو پھر ایسا کیوں کررہے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ
صبح کو مزدوری کرکے کماتا ہوں اور رات کو طالبان کے ساتھ ہوتا ہوں تو اچھا خاصا
خرچہ نکل آتا ہے اور گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں بھی مل جاتی ہیں۔
میرے چھوٹے بھائی کو سکول جانا پسند
نہیں ہے۔ وہ صبح سکول جاتے وقت روتا ہے اور واپسی پر ہنستا ہے۔ لیکن آج روتے ہوئے
واپس آیا تو امی نے رونے کی وجہ پوچھی۔ وہ کہنے لگا کہ مجھے سکول سے آتے وقت ڈر لگ
رہا تھا۔ جب بھی کوئی شخص نظرآتا تو میں ڈر جاتا کہ کہیں وہ مجھے اغواء نہ کرلے۔
میرا یہ چھوٹا بھائی اکثر دعا کرتا
ہے کہ ’اے اللہ سوات میں امن لے آنا اگر نہیں آتا تو پھر امریکہ یا چین کو یہاں لے
آنا‘۔
سوات میں آج پھر طالبان اور فوج کے
درمیان لڑائی ہوئی ہے۔ کچھ دنوں سے ایسے واقعات ہورہے ہیں۔ آج میں نے کئی دنوں کے
بعد پہلی مرتبہ مارٹر گولوں کی آوازیں سنیں۔ لوگوں میں پھر امن معاہدے کے ٹوٹنے کا
خوف پیدا ہوگیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’دراصل امن معاہدہ مستقل نہیں بلکہ یہ جنگ
کے درمیان کا وقفہ ہے‘۔
آج کلاس میں استانی نے پوچھا کہ تم
میں سے کون کون طالبان کا ایف ایم چینل سنتا ہے تو زیادہ تر لڑکیوں نے کہا کہ اب
سننا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن کچھ لڑکیاں اب بھی سن رہی ہیں۔ لڑکیوں کا خیال تھا کہ جب
تک ایف ایم چینل بند نہیں ہوتا تب تک امن نہیں آسکتا۔
طالبان کہتے ہیں کہ وہ ایف ایم چینل
کو درسِ قرآن کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن کمانڈر خلیل ابتداء میں کچھ دیر کے لیے
درس قرآن دینا شروع کردیتے ہیں مگر پھر آہستہ سے موضوع بدل کر اپنے مخالفین کو
دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ جنگ، تشدد اور قتل کے سبھی اعلانات ایف ایم سے ہوتے
ہیں۔
آج ہم جب
ریسس کے دوران کلاس سے باہر نکلے تو فضاء میں ہیلی کاپٹر نظر آیا۔ جہاں ہمارا سکول
واقع ہے وہاں پر ہیلی کاپٹر کی پرواز بہت نیچی ہوتی ہے۔ لڑکیوں نے فوجیوں کو
آوازیں دیں اور وہ بھی جواب میں ہاتھ ہلاتے رہے۔ فوجی اب ہاتھ ہلاتے ہوئے تھکے
ہوئے معلوم ہو رہے ہیں کیونکہ یہ سلسلہ گزشتہ دو سالوں سے جاری ہے۔
سوات میں طالبان نے پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگادی
تھی مگر صوبائی حکومت اور کالعدم تحریکِ نفاذ شریعت محمدی کے درمیان ہونے والے
’امن معاہدے‘ کے بعد طالبان نے اپنا یہ فیصلہ صرف امتحانات کے انعقاد تک جزوی طور
پر واپس لے لیا ہے۔ مقامی طالبات کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی غیر یقینی کی صورتحال سے
گزر رہی ہیں۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام سوات سے تعلق رکھنے والی ساتویں
جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔
سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھ رہی ہیں۔
اس سلسلے کی دسویں کڑی:
پیر، نو
مارچ:’طالبان اب گاڑیوں کی تلاشی نہیں لیتے‘
آج سے ہمارے امتحانات شروع ہو رہے ہیں لہذا اٹھتے ہی بہت
پریشان تھی۔ امی اور ابو ہمارے کسی رشتہ دار کی فاتحہ خوانی کے لیے گاؤں گئے ہوئے
ہیں اس لیے آج میں نے خود ہی چھوٹے بھائیوں کے لیے ناشتہ تیار کیا۔
میرا سائنس کا پیپر بہت اچھا ہوا۔ دس سوالوں میں سے آٹھ
کرنے تھے مگر مجھے دس کے دس یاد تھے۔ جب گھر واپس آئی تو امی ابو کو گھر میں پاکر
بہت خوش ہوئی۔ امی نے بتایا کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقے سے ہوکرگاؤں گئے
تھے۔ وہاں طالبان مسلح نظر آ تو رہے تھے لیکن وہ پہلے کی طرح گاڑیوں کی تلاشی نہیں
لے رہے تھے۔
منگل، دس مارچ:
’مولانا شاہ دوران گاؤں واپس آگئے‘
آج جب میں سکول سے واپس آرہی تھی تو میری ایک سہیلی نے
مجھ سے کہا کہ سر اچھی طرح ڈھانپ کر جاؤں نہیں تو طالبان سزاد دے دیں گے۔ آج بھی
مینگورہ کے قریب قمبر کے علاقے میں سکیورٹی فورسز پر فائرنگ ہوئی ہے۔
طالبان کے ایف ایم چینل پر تقریر کرنے والے مولانا شاہ دوران بھی آج اپنے گاؤں قمبر واپس آگئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہاں کے طالبان نے ان کا استقبال کیا۔ طالبان نے اب بھی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ نماز یں پڑھا کریں اور خواتین پردے کا خاص خیال رکھیں۔
طالبان کے ایف ایم چینل پر تقریر کرنے والے مولانا شاہ دوران بھی آج اپنے گاؤں قمبر واپس آگئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہاں کے طالبان نے ان کا استقبال کیا۔ طالبان نے اب بھی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ نماز یں پڑھا کریں اور خواتین پردے کا خاص خیال رکھیں۔
بدھ، گیارہ مارچ:
’بہت عرصے بعد گانے سنے‘
آج کا پیپر بھی اچھا ہوا اور خوش ہوں کہ کل چھٹی ہے۔آج
میں نے اور دو چھوٹے بھائیوں نے چوزے خریدے مگر میرے چوزے کو سردی لگ گئی ہے اور
بیمار ہوگیا۔ امی نے اس سے گرم کپڑے میں رکھ دیا ہے۔
آج بازار بھی گئی جہاں بہت زیادہ رش تھا۔ کہیں کہیں پر ٹریفک بھی جام تھی۔ پہلے رات ہوتے ہی بازار بند ہوجاتا لیکن اب رات دیر تک کھلا رہتا ہے۔
آج بازار بھی گئی جہاں بہت زیادہ رش تھا۔ کہیں کہیں پر ٹریفک بھی جام تھی۔ پہلے رات ہوتے ہی بازار بند ہوجاتا لیکن اب رات دیر تک کھلا رہتا ہے۔
آج میں نے ریڈیو آن کیا تو حیرت ہوئی کہ ایک خاتون پروگرام
کررہی تھی اور لوگ فون کر کے اپنی پسند کےگانے کی فرمائش کر رہے تھے۔ ابو نے بتایا
کہ یہ حکومت کا چینل ہے۔ بہت عرصے بعد میں نے ریڈیو پر پشتو کے گانے سنے۔ دور دراز
سے لوگ فون کرتے ہیں ایک لڑکے نے تو بلوچستان سے فون کیا۔
جمعرات، بارہ مارچ:
’جنت میں حوریں انیس کا انتظار کر رہی ہیں‘
میرا دو دنوں سے گلا خراب ہے لہذا ابو مجھے آج ایک ڈاکٹر
کے پاس لے گئے۔ وہاں ویٹنگ روم میں دو خواتین بھی بیٹھی ہوئی تھیں اور دونوں کا
تعلق قمبر کے علاقے سے تھا۔
ان میں سے ایک نے بتایا کہ ان کے علاقے میں اب بھی
طالبان کا کنٹرول ہے۔ انہوں نے بعض لوگوں کو سزائیں بھی دی ہیں۔ خاتون نے اپنے
محلے کے ایک لڑکے کا واقعہ بھی سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے محلے میں ایک لڑکا ہے
جس کا نام انیس ہے۔
وہ طالبان کا ساتھی تھا۔ ایک دن اس کے طالبان ساتھی نے
اسے بتایا کہ اس نے ایک خواب دیکھا ہے جس میں جنت کی حوروں نے اس سے کہا کہ 'ہمیں
انیس کا انتظار ہے‘۔
خاتون نے بتایا کہ یہ بات سن کر انیس بہت خوش ہوا اور
اپنے والدین کے پاس گیا اور کہا کہ حوریں ان کا انتظار کر رہی ہیں اور وہ 'خودکش
حملہ‘ کر کے 'شہید‘ ہونا چاہتا ہے۔ ماں باپ نے ان کو اجازت نہیں دی تو اس نے کہا
کہ وہ افغانستان جا کر جہاد کرنا چاہتا ہے۔
خاتون کے بقول گھر والوں نے لڑکے کو اجازت
نہیں دی مگر لڑکا گھر سے بھاگ گیااور کل ڈیڑھ سال بعد سوات کے طالبان نے ان کے گھر
والوں کو بتایا کہ انیس سوات میں سکیورٹی فورسز پر خودکش حملے میں ہلاک ہوگیا ہے۔
No comments:
Post a Comment