نئے صوبوں کی تشکیل، سنجیدہ کوششیں یا ڈرامہ؟
کیا موجودہ حکومت ملک میں نئے صوبے بنانے کے لیے مخلص
ہے ؟ مسلم لیگ نواز نئے صوبوں کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟ کیا ملک میں کوئی
نیا صوبہ بنے گا بھی یا نہیں ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل پاکستان اور خاص
طور پر جنوبی پنجاب کے عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل پر بحث تو طویل
عرصے سے جاری ہے اور بظاہر ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتیں اس پر متفق بھی
نظر آتی ہیں تاہم اس کے باوجود نئے صوبے بنانے کے لیے کوئی عملی پیش رفت
نہیں ہوسکی۔
پاکستان میں تین ماہ کے وقفے کے بعد
اب ایک مرتبہ پھر نئے صوبوں کی تشکیل کا پارلیمانی کمیشن متحرک ہوا ہے لیکن
سوال یہ ہے کہ پنجاب میں سب سے زیادہ نمائندگی رکھنے والی جماعت مسلم لیگ
نواز کی کمیشن میں عدم موجودگی کے باعث کمیشن جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ
بنانے اور بہاولپور صوبے کو اس کی پرانی شکل میں بحال کرنے میں کس حد تک
کامیاب ہوسکے گا ؟
پیپلزپارٹی یہ جانتی ہے کہ اس کے پاس
نئے صوبے کی تشکیل دینے کے لیے عددی اکثریت موجود نہیں تو پھر وہ اس سارے
قضیے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے ؟سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق ’جب
تک تمام سیاسی جماعتوں میں چاروں صوبوں کو دوبارہ سے ترتیب دینے میں اتفاق
رائے نہیں ہو گا اس وقت تک اس طرح کی تجاویز آگے نہیں بڑھ سکتیں اس سے کچھ
لوگ سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش تو ضرور کریں گے تاہم اس طرح سے نئے صوبے
بننا ممکن ہے۔الگ صوبے کا مطالبہ صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا میں بھی کیا جا رہا ہے ۔
رواں برس مئی میں پنجاب اسمبلی نے دو قرادادیں
متفقہ طور پر منظور کیں جن میں سے ایک میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ جنوبی
پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لیے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے دوسری قرارداد
بہاولپور کو اس کی پرانی شکل میں بحال کرنے سے متعلق تھی۔
صدر زرداری نے انہی قراردادوں کو بنیاد بنا کر
قومی اسمبلی کی سپیکر کو ملک میں نئے صوبے بنانے کے حوالے ایک کمیشن کی
تشکیل کے لیے ریفرنس بھیجا جس کی روشنی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے چھ چھ
جبکہ پنجاب اسمبلی کے دو ارکان پر مشتمل کمیشن قائم کر دیاگیا۔
کمیشن کا قیام تو عمل میں آگیا لیکن پنجاب اسمبلی
نے دو اراکین کو نامزد نہیں کیا۔ پنجاب کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ
جس صوبے کی تقسیم کی بات کی جا رہی ہے اسے کمیشن میں مناسب نمائندگی نہیں
دی گئی۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کہتے ہیں’کمیشن
تو اتفاق رائے سے بنتے ہیں۔ مرکز میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی
مشاورت ہونی چاہیے تھی جس کے بعد ہی کمیشن کے دائرہ کار اور اراکین کا
فیصلہ ہونا چاہیے تھا یہ یک طرفہ کمیشن ہے جس میں پنجاب کی نمائندگی نہ
ہونے کے برابر ہے اور کمیشن کا سربراہ ایوان صدر کے ترجمان کو بنایاگیا ہے
جس کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے ۔‘
کمیشن کا پہلا اجلاس اٹھائیس اگست کو اسلام آباد
میں ہوا جس کے بعد تقریباً تین ماہ مکمل خاموشی رہی اور اب ایک مرتبہ پھر
کمیشن متحرک ہوگیا ہے ۔ کمیشن نے پنجاب کی تقسیم کے لیے عوام اور ماہرین سے
رائے بھی طلب کی ہے۔ قواعد کے مطابق کمیشن نے ایک ماہ کے اندر اپنی
سفارشات مرتب کرنا ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے تقریباً ہر اجلاس میں سرائیکی
صوبے کے لیے آواز اٹھانے والے راجن پور سے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی اطہر
گورچانی کہتے ہیں ’صدر زرداری نے کئی مرتبہ سرائیکی عوام سے یہ وعدہ کیا ہے
کہ وہ انھیں ان کی پہچان دیں گے۔ کمیشن میں پنجاب کے صرف دو ارکان ہیں اگر
ن لیگ کمیشن کا بائیکاٹ کرے بھی تو باقی تمام پارٹیاں تو کمیشن میں بیٹھی
ہوئی ہیں۔ صدر انہیں قائل کرلیں گے کہ وہ پنجاب کی تقسیم کے حق میں ووٹ
دیں۔ اگر مسلم لیگ ن کمیشن میں نئے صوبوں کے لیے ووٹ نہ بھی دے یا مخالفت
کرے تو ان کے ووٹوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
کمیشن تو صرف سفارشات ہی مرتب کرسکتا ہے نئے صوبوں
کی تشکیل کے لیے آئین میں ترمیم تو پارلیمان کو ہی کرنا ہے اور پیپلز
پارٹی شاید سینیٹ میں تو یہ ترمیم منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت
رکھتی ہو لیکن قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تو اس کے لیے یہ ممکن
نہیں۔پیپلزپارٹی یہ جانتی ہے کہ اس کے پاس نئے صوبے کی
تشکیل دینے کے لیے عددی اکثریت موجود نہیں تو پھر وہ اس سارے قضیے سے کیا
حاصل کرنا چاہتی ہے ؟
ماہر سیاسیات ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں’
پارلیمانی کمیشن کی کارروائی سے جنوبی پنجاب میں یہ تاثر تو پیدا کیا
جاسکتا ہے کہ نواز لیگ پنجاب کی تقیسم کی مخالف ہے جبکہ پیپلزپارٹی اور
دوسری جماعتیں نئے صوبوں کے حق میں ہیں اور اس سے آئندہ انتخابات میں
پیپلزپارٹی کے لیے ووٹرز کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے اس کے علاہو اس کا کوئی
اور مقصد نہیں ہے۔‘
No comments:
Post a Comment